Type Here to Get Search Results !
TAOBAT WEATHER

"ٹورمالین جھیل ۔۔۔اک ان کہی کہانی"

"ٹورمالین جھیل ۔۔۔اک ان کہی کہانی"


سن دو ہزار بیس جہاں پوری دنیا ایک عجیب و غریب قسم کے مکوڑے وائرس سے بدحال تھی، جہاں دنیا بھر میں لوگ اپنے گھروں میں اجنبیوں کی طرح رہنے پہ مجبور تھے وہیں ازاد کشمیر کے ضلع نیلم کے ایک گاؤں جانوئی (جو کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے آخری کچھ گاؤں میں سے ایک ہے) میں مجھے سیاحت کا وائرس پوزیٹو تھا۔ گزشتہ کچھ سالوں سے مسلسل ایک ان دیکھی جھیل کو دیکھنے کا پلان بنتے بگڑتے دیکھ کر اس بار یہ تہیہ کیا کہ کچھ بھی ہو جائے ٹورمالین جھیل کا وزٹ اس بار لازمی کریں گے۔
چناچہ اپنے ہمراہ کچھ دوستوں کو لیے میں نے بھی رخت سفر باندھا اور ان دو دنوں اور ایک رات کے اس سفر میں جو کچھ دیکھا، وہ آج تک دل، دماغ اور آنکھوں میں نقش ہے۔

ٹورمالین جھیل ، جس کو عرف عام میں "سر جھیل" بھی کہا جاتا ہے جانوئی گاؤں سے شمال مغرب کی جانب "جندراں والے ناڑ" سے متصل 10 کلو میٹر طویل ٹریک کی مسافت پر واقع ہے۔ ایک ایسی جھیل، جسے پہلے نظر دیکھنے پہ قدرت کی بناوٹ پہ رشک آتا ہے اور بار بار اور مسلسل دیکھنے کو دل چاہتا ہے وہیں اس کے لمبے اور کھٹن راستے پہ چلتے ہوئے جل تو جلال تو کا ورد بھی تقریباً فرض ہو جاتا ہے۔

مختلف ڈھلوانیں ، چڑھائیاں اور پہاڑی درے گزارنے کے بعد ہی اس شاہکار کو دیکھا جا سکتا ہے۔ صرف بلند حوصلہ افراد ہی اس کار کو سر انجام دے سکنے کے متحمل تھے اور ہماری خوش قسمتی کہ ہم اپنے آپ کو بلند حوصلہ سمجھتے تھے ۔
ستمبر 2022 کے وسط میں ہم 6 لڑکوں پہ مشتمل قافلہ جمعہ کی نماز جانوئی گاؤں میں ادا کرنے کے بعد تقریباً اڑھائی بجے گاؤں سے نکلا ۔ خوشی اور مسرت سے معمور ہم 6 پرجوش چہرے مزے مزے سے خوش گپیوں میں مصروف اسے ڈھلوان دار راستے پی چلتے چلے گئے جس کے ساتھ ساتھ جندراں والا ناڑ اپنے مختلف نشیب و فراز سے گزرتا ہوا ہزاروں سالوں سے محو سفر ہے ۔
چونکہ گاؤں جانوئی سے 6 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع "پچھلی بستی" نامی اس ڈھوک میں ہمارا تقریباً ہر سال ہی انا جانا لگا رہتا ہے اس لیے یہاں تک کا سفر ہمارے لیے بالکل غیر مانوس نہیں لگا۔ البتہ ایک بات ماننا پڑے گی کہ اگر چہ آپ اس راستے پہ سیکڑوں بار چلیں، اس کے راستے میں آنے والی طرح طرح کی حسین و جمیل گھاٹیاں، خطرناک درے، حیرت انگیز پل ، برساتی نالے اور بے تحاشہ ٹھنڈے پانی کے میٹھے چشمے آپکی توجہ اپنے جانب مبذول کرانے میں کامیاب رہیں گے اور گویا چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ
یہ انہی خوبصورت نمونوں کا ہی نتیجہ تھا کہ ہم لوگ پچھلی بستی پہنچے تو اندھیرا چھا چکا تھا ۔ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت ہم ٹیمز کی شکل میں رات کو اپنے اپنے متعلقہ رشتہ داروں کے پاس رکے اور یوں 6 کلومیٹر کے اس سفر کی تھکن مکھن، دیسی دودھ اور قدرت کے حسین دامن میں پرسکون رات گزار کے اتاری۔
صبح 7 بجے جاگے تو ہم بھرپور جوان تھے۔۔۔۔۔۔۔۔رات کو وقت اور جگہ طے کر چکے تھے لہذا اگلے چند منٹوں میں ہم سب لڑکے لوگ ایک پرخطر مگر لاجواب سفر کی شروعات کر چکے تھے جس کی منزل جنت کے کسی ٹکڑے سے کم نہ تھی۔

پچھلی بستی (جسے ہم لوگ بیس کیمپ 2 بھی کہہ سکتے ہیں) سے جھیل تک کا سفر تقریباً 4 کلو میٹر کا ہے مگر یہ راستہ گزشتہ راستے سے زیادہ تھکاوٹ زدہ ہے کیونکہ یہاں راستہ انتہائی خطرناک اور چڑھائی بھی زیادہ ہے ۔

 خیر چند خطرناک نشیب و فراز اور ایک لمبا خوبصورت موڑ گزارنے کے بعد بڑے بڑے پتھروں پہ مشتمل ایک سلسلہ آیا جسے مقامی زبان میں (کاڑ) کہتے ہیں ۔ وہاں بیٹھ کہ تھوڑا سستانے اور جھیل کو دیکھنے کے لیے ایکسائٹمنٹ اور انرجی پیدا کی، کیونکہ یہاں سے اب قدرت کا کرشمہ چند منٹوں کی مسافت پر تھا ۔ یہاں سے آپ سامنے جنوب کی طرف پہاڑوں کا ایک لا متناہی سلسلہ دیکھ سکتے ہیں جن کی چوٹیوں پہ انڈین اور پاکستانی چوکیاں قائم ہیں۔ اس موقع پر اگر دوربین ساتھ ہو تو کیا ہی بات ہے۔

چلیں جی، ہمارے سامنے اب ایک ہلکی سی ڈھلوان ہے جس کو سر کرتے ہی ہمارے سامنے ایک شاندار منظر ہمارا منتظر تھا۔۔۔۔۔۔۔
دور دور تک پھیلا ہوا نیلگوں پانی ، تین اطراف سے پہاڑوں میں گھری، اپنے اندر پرسکون مگر قابلِ دید موجوں میں مگن آنکھوں کو خیرہ کرتی ہوئی " ٹورمالین جھیل" ہمارے سامنے تھی۔۔۔۔۔
اف یہاں آ کہ الفاظ کا سہارا لینا کافی مشکل لگ رہا ہے کیونکہ یہ احساسات وہاں پہنچ کہ وہاں اپنے وجود سمیت اس کو محسوس کرنا ہی اصل لطف ہے اور یہ لطف کیں مکمل طور پر محسوس کر رہا تھا ۔

کافی دیر جھیل اور اس کا گردو نواح انجوائے کرنے کے بعد پیٹ نے آوازیں مارنا شروع کر دیں۔ لہٰذا اپنے ساتھ کھانے پینے کے سامان کو نکالا ، لکڑیاں جمع کر کہ آگ جلائی ، چاولوں کا پلاؤ جھیل کے کنارے تیار کیا اور آخر میں دودھ پتی چائے پینے کہ بعد میرے ہمسفر دوستوں نے دیسی کشمیری ڈانس بھی کیا جس کے بعد ہمیں بجھے ہوئے دل اور بھاری قدموں کے ساتھ واپسی کا سفر اختیار کرنا پڑا۔
ٹورمالین جھیل کے ٹھنڈے نیلگوں میں پاؤں رکھ کر دور دور تک نظر دوڑاتے ہوئے میں بس یہی سوچ رہا تھا کہ کب اس جھیل کی رونقیں آئیں گی؟؟ کب اس کو اسکی اس قدر خوبصورتی کا حق ملے گا۔ کب یہ جگہ اس طرح پہاڑوں کے دامن میں پہاڑوں کے بیٹوں سے چھپی رہے گی؟؟ 
کب تک، آخر کب تک؟؟؟


بشکریہ:۔
اشتیاق سرور اعوان ۔۔۔۔۔۔جانوئی

ستمبر 2020

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads

Blogger Templates