Type Here to Get Search Results !
TAOBAT WEATHER

Taobat to Astore via Qamri Pass

 
ایک غضب کی رودادِ سفر۔۔۔

تاوبٹ سے استور براستہ قمری پاس ،اور استور سے پھلاوئی براستہ پھلاوئی پاس۔

(یاد رہے قمری پاس کے لیے پاک آرمی سے باقاعدہ اجازت نامہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ اور ہم نے اس سفر میں ان تمام چیزوں اور قوانین کومکمل فالو کیا ہے۔)
اس سفر نامہ میں ہم نے تاوبٹ سے قمری استور کا سفر کیا جس میں ہم نے ایک پاس کے زریعے اس سفر کو مکمل کیا۔ یہ وہ ٹریک ہے جو کہ بہت ہی کم لوگوں نے کیا ہوا ہےاور اس کے لیے کافی کچھ لمبا پراسس ہے۔ یہ کوئی اکتوبر ۲۰۲۲ کی بات ہے جب میں کسی کام سے اسلام آباد گیا ہوا تھا اور رات کو اپنے بھائی سجاد سرور کے گھر پر تھا تو لگ بھگ ۱۲ بجے رات کو صادق بھائی ( گریب ایٹ ایڈونچر کے سی ای او) کی کال آتی ہے یہ ان سے پہلی بات چیت تھی جب انہوں نے سلام دعا کی اور اس تاوبٹ سے قمری والے ٹور کے حوالے سے معلومات لی اور دیں، تب یہ طے پایا کہ اس بارے مکمل معلومات لی جائیں اور پھر اس کا مکمل ٹور پلان کیا جائے۔ اس کے بعد سے ان سے کئی بار کئی ایک موضوعات پر بات ہوتی رہی اور اس میں پاک آرمی سے این۔او۔سی یعنی اجازت نامہ سمیت دیگر سفر کی ہر ضروریات کی بات چیت شامل تھی، اسی دوران اس ٹور کو کامیاب کرنے کے لیے میں نے ندیم بھائی کو بھی شامل کیا اور صادق بھائی سے براہ راست بھی ان کی بات چیت ہوئی۔

پھر کچھ عرصے بعد پلان بنا اور 12 جون کو صادق بھائی 4 دیگر لوگوں کے ہمراہ تاوبٹ پہنچتے ہیں اور وہاں ہماری ملاقات ہوتی ہے۔ صادق بھائی کے ساتھ ڈاکٹر وقار شاہ صاحب ، سلمان حمید، نور قریشی اور ولید پاشا آئے تھے اور یہ لوگ پہلے بھی کئی بار ٹریکنک کر چکے تھے اور کافی جذبہ دکھائی دے رہا تھا۔ رات کو ہم نے ساتھ لے جانے والے سامان کی ترتیب بنائی اور دیگر ضروری امور پر بات کی اور طے ہوا کہ صبع سویرے ہم تاوبٹ سے اپنے سفر پر نکلیں گے۔

صبع سویرے صادق بھائی اور ندیم بھائی وقت پر ہی تاوبٹ بالا پورٹرز اور گھوڑے لینے گئے لیکن بد قسمتی سے کچھ بھی نہ ملا اور ہمارے سفر کے شروع کے دن ہی تاوبٹ میں سروس نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے پورٹر مکمل نہ ہوسکے ، لیکن یہ گریب ایٹ ایڈونچر کہاں کچھ ماننے والا تھا تو پھر تھوڑی دیر کے لیے سروس آتے ہی ندیم بھائی نے اپنے گاوں جندرسیری سے 4 پورٹر بلائے اور ان کا انتظار کرنے لگے ۔ اس دوران ہم مزید پورٹر تلاش کر رہے تھے لیکن سروس نہ ہونے کی وجہ سے کافی دشواری ہوتی رہی لیکن ہم نے دن 12 بجے تک تمام پورٹرز کا بندوبست کر لیا ۔

پہلا دن۔

پہلے دن کا سفر ہمارا تاوبٹ سے شروع ہوا اور ہم آہستہ آہستہ تاوبٹ کے جنگل میں داخل ہونے لگے جہاں ہمیں خوبصورت ویلی میں کچے مٹی کے گھر اور روایتی دیگر چیزیں دیکھنے کو ملی ، اس راستے میں لکڑ سے بنے پل سے گزرتے ہوئے ایک روح پرور منظر نظر آرہے تھے جہاں ہمارے ساتھ ساتھ بکروالوں کے مال مویشی بھی ہمارے ساتھ محو سفر تھے۔ پہلے دن پر ٹیم کافی پرجوش تھی اور ٹولیوں کی صورت میں ۱۳ لوگ رواں دواں تھے۔ ہم میں سے کچھ لوگ نئے نئے ملے تھے تو ابھی کوئی گہری گپ شپ نہیں ہورہی تھی ۔

راستے میں فوٹوگرافی کرتے کراتے ہم 3 بجے ایک جگہ رکے اور ہم نے ساتھ اٹھائے اور اسلام آباد سے لائے آم کھائے جو کہ صادق بھائی کا خاص تحفہ تھا سب کے لیے ۔ اس آم پارٹی سے سب لوگ ایک بار ریچارج ہو گئے اور سفر پھر سے جاری ہو گیا۔ نالے کے ساتھ ساتھ خوبصورت وادی میں بنی پکڈنڈی پر چلنا اپنے اندر ایک ایڈونچر ہی تھا اور ساتھ ساتھ خوبصورت خم دار راستے اور پتھروں پر سے گزرنا اور جھرنوں کی آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ یہاں راستے میں ہمیں بکروال ملے جنہوں نے اپنے خیمے نالے کے ساتھ لگائے ہوئے تھے ، ہم سب لوگوں میں سے ایک تو پورٹرز کی ٹیم آگے تھی اور پھر ہمارے اس ٹور کی شان و آن ڈاکٹر وقار صاحب ہم سے بہت آگے تھے اور سب سے آخر میں میں اور صادق بھائی تھے۔ خیر سفر جاری تھا اور ہم آہستہ آہستہ بلندی کی طرف رواں دواں تھے اور ہر نئے قدم کے ساتھ بلندی کی طرف گامزن تھے۔راستے میں ہر نئے موڑ کے ساتھ ایک نیا منظر آنکھوں کو دنگ کر رہا تھا تو وہیں دماغ کو ٹھنڈا اور روح کو سکون بخش رہا تھا۔ یہاں ہمیں نیلم کے لوگوں کے گرمیوں کے عارضی ٹھکانے بہکیں بھی دیکھنے کو ملتی رہی اور ساتھ ہی بچے کچھے برف کے تودے بھی منظر کشی میں شامل تھے۔ لگ بھگ ۵ بجے موسم خراب ہونے پر بارش شروع ہو گئی اور ہم نے قریب ہی بکروالوں کا لگائے عارضی خیمے کا رخ کیا اور اس میں بیٹھ کر بارش کے رکنے کا انتظار کیا اور اس دوران بکروال بھائی سے گپ شپ ہوئی۔

بارش ختم ہونے پر ہم نے دوبارہ سفر شروع کیا اور لکٹری کے پلوں سے گزرتے ہوئے ہر نئے منظر اور نالے کے ساتھ ساتھ خوبصورت ویلی میں آگے بڑھ رہے تھے۔ یہاں ہی ہمیں ایک جگہ جاگراں نیلم ویلی کی طرز کا ایک واٹر فال ملا جہاں سب نے دل کھول کر تصاویر بنوائیں اور تھوڑا سستانے کے بعد دوبارہ چل پڑے۔اب چونکہ شام قریب کو تھی اور اندھیرا ہونے کو تھا تو ہم نے ایک جگہ اچھی سی دیکھی اور وہاں ہم نے خیمے لگانے کا فیصلہ کیا۔ ساتھ ہی سب لوگ تھکے ہونے کے ساتھ ساتھ بھوک سے بھی نڈھال تھے تو فوری طورپر کچھ نوڈلز بنانے شروع کیے تاکہ کچھ ابتدائی پیٹ پوجا کی جا سکے۔ اور پھر خیمے لگانے کا کام شروع کیا گیا۔ خیمے لگنے کے بعد نوڈلز کھائے اور پھر بون فائر کا انتطام ہوا اور یہاں سے پھر ایک حسین رات کا منظر شروع ہوا۔ جہاں ہمارا بون فائر ایک بہت بڑے بون فائر میں تبدیل ہوا اور پھر ہر طرف ہنسی مزاح اور خوش گپیاں تھی۔اسی دوران کھانے میں پلاو اور قیمہ تیار کیا گیا جو کہ جنگل میں منگل کا سماں پیدا کر گیا ۔ اب باری تھی کافی بنانے کی تو اس کافی کے چکر میں وہاں شروع ہوئی ایک ریس ایسی ریس کے جس میں صادق بھائی ، ندیم بھائی اور سلمان بھائی کا سخت مقابلہ ہوا لیکن سبھی جیت گئے ۔کافی پینے کے بعد سب لوگ اپنے اپنے خیموں میں سو گئے۔

                                                  

دوسرا دن۔

صبع جاگے تو ایک حسین منظر ، چمکتی دھوپ کے ساتھ ایک نیا دن خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ ناشتہ تیار ہوتے ہی سب نے سلگتی بون فائر پر بیٹھ کر ناشتہ کیا ۔خیمے اکٹھے کیے اور پھر سب کا ایک گروپ فوٹو لیا گیا اور دوسرے دن کا سفر شروع ہو گیا۔ اور پہلے دن کی ہی طر ح سب سے آگے پورٹرز اور پھر ڈاکٹرصاحب اور کہیں دور پیچھے ہم باقی لوگ رواں دواں تھے۔ مختلف بستیوں ، جھرنوں سے گزرتے ہوئے نئے نئے منظر دیکھنے کو مل رہے تھے۔ ہم ایک میدان سے گزر کر دوبارہ ایک ویلی جہاں ہر طرف گلشئیرز تھے اس میں داخل ہو گئے۔ اس میدان سے نیچے گلشیئر پر اترنا کوئی آسان کام نہ تھا لیکن سب باعافیت اترنے میں کامیاب ہوگئے ۔اور اسی برف پر اسی برف میں ٹھنڈا کیا گیا تربوز کاٹا گیا اور تربوز پارٹی کی گئ۔ تربوز کھانے کے بعد ایک نئے لیکن مشکل سفر کا آغاز ہوا جہاں تنگ سے درخت کے تنے کے پل سے گزرنا اور ڈھلوانی راستہ عبور کرنا ایک چیلنچ تھا۔پھولوں اور درختوں کی یہ وادی روح پرور منظر پیش کر رہی تھی۔آج کے سفر میں کہیں کہیں کچھ زیادہ ہی سخت مشکل گزرگاہیں مل رہی تھی جہاں گزرنے میں کافی مشکل درپیش آئی لیکن ڈاکٹر صاحب کی باتیں تو یہاں ہمیں ریچارج کر رہی تھیں۔ پھر وہی میدان ، جھرنے، آبشاروں اور بستیوں سے گزر کر ہم فطرت کے رنگوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ شام تین بجے ہم ایک برفانی ویلی میں داخل ہوئے جہاں کافی دیر کا سفر برف پر ہی جاری رہا۔ سب لوگ بھوک سے نڈھال تھے اور فوری طور پر کسی جگہ رکنے پر بصد تھے لیکن ندیم بھائی اور ڈاکٹر صاحب کافی آگے جا چکے تھے جس پر سب ان کو کوستے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے اور پھر وہ جگہ آ ہی گئی جہاں خیمے لگائے جانے تھے ۔

یہاں ہم نے خیمے گاڑھے اور پھر وہی نوڈلز کے ساتھ ابتدائی پیٹ پوجا کا بندوبست کیا گیا ۔یہاں ہم کافی بلندی پر بھی تھے اور آس پاس کافی برف کی وجہ سے یہاں کافی ٹھنڈ تھی اور موسم بھی کچھ خراب تھا۔ ہم نے فوری طور پر بون فائر کا بندوبست کیا چونکہ یہاں لکڑیاں کم تھیں اس لیے ایک بڑا بون فائر تو نہ کر سکے لیکن یہ بھی کافی تھا۔ سب لوگ کافی تھکے ہوئے تھے تو کھانا کھایا کچھ سستائے اور کافی پینے کے بعد سو گئے اور ہلکی بارش بھی جاری رہی۔

تیسرا دن۔

صبع کا آغاز ایک بادلوں بھرے آسمان کے نیچے ایک میدان پر شبنم کے قطروں کے ساتھ حسین خوشبوں سے ہوا اور پھر ناشتہ کیا اور خیمے بند کیے اور سفر کا آغاز ہو گیا۔ یہاں ہمیں صبع صبع ہی ایک مشکل جگہ کا سامنا ہوا جہاں ہمیں ایک نالے سے گزرنے کے لیے کافی مشکل پیش آئی۔ اب ہم برف اور چشموں اور پھولوں کی وادی میں محو سفر تھے۔ ۱۱ بجے ہمارے سامنے ایک برفیلی چڑھائی تھی اور یہ ہمیں ہر صورت چڑھنی تھی کیونکہ اسی کے اس پار ایک نئی دنیا ایک نیا علاقہ ہمارا منتظر تھا۔ ۱ بجے ہم بلکل قمری پاس کی ٹاپ پر تھے اور یہ لمحہ ناقابل بیان ہے۔۔۔۔

پاس پر پہنچتے ہی سب جیسے کھل سے گئے تھے اور خوشی سے نہال تھے اس پاس کی بلندی سطع سمندر سے 13000 فٹ سے زائد ہے ۔ سب کے چہروں پر ہنسی اور خوشی تھی ۔ سب لوگوں نے دل کھول کر تصاویر بنوائیں۔ یہاں ہم نے میکرونی بنائی اور اس کو کھانے کے بعد سب کو برج (ایک بلندی پر اگنے والا درخت ) کی چھال جو کہ کاغذکی طر ح ہوتی ہے اس پر سب کو پاس کو کامیابی سے مکمل کرنے پر گریب ایٹ ایڈونچزز کی طرف سے ایوارڈ دیے گئے۔ سب کا گروپ فوٹو لیا گیا اور پھر ہم قمری کی حدود میں داخل ہو گئے۔ اب یہاں سے نیچے آبادی کی طرف اور آرمی کے پاس اترنا تھا ۔ اس کے لیے ہماری اچھی قسمت کے راستے میں برف ہونے کی وجہ سے ہم نے سلائیڈنگ کی اور یہ بھی یادوں کا حصہ بن گی۔

قمری گاوں کی طرف اترتے وقت کافی تیز طوفانی بارش سے سامنا ہوا تو ہم نے پتھروں سے بنے ایک چھوٹےسے گھر میں پنا ہ لی۔ بارش ختم ہونے پر ہم قمری گاوں میں داخل ہوئے تو ایک خوبصورت گاوں آنکھوں کو دنگ کر رہا تھا۔ قمری پاک آرمی چیک پوسٹ پر ہماری معلومات چیک کرنے کے بعد ہمیں منی مرگ بھیجا گیا کیونکہ قمری میں علاقہ غیر کے لوگ رات کو نہیں رک سکتے۔ ہم کافی تھکے ہوئے تھے اور پھر ہم منی مرگ پہنچے اور رات قیام کیا۔


چوتھا دن۔

آج ہم صبع جاگے ناشتہ کیا اور ہمارے پورٹرز نے واپسی کی راہ لی۔ مجھے اور ندیم بھائی کو بھی واپس آنا تھا لیکن ہماری ہزار کوشش کے باوجود صادق بھائی اور دیگر تمام نے ہمیں ساتھ چلنے پر مجبور کر دیا اور ہم نے پھر گاڑی بک کروائی اور قمری کے کچھ علاقے دن کی روشنی میں دیکھے جو کہ گزشتہ رات نہ دیکھ سکے تھے اور پھر ہمارا سفر منی مرگ سے برزل ٹاپ کی طرف شروع ہوا۔ اس سفر میں ہر طرف برف سے ڈھکے ننگے لیکن دیدنی پہاڑ ہر طرف سماں باندھ رہے تھے ۔
 برزل کے راستے میں ہمیں برف سے ڈھکی گلتری ویلی بھی دیکھنے کو ملی جہاں ہم رکے چائے پی اور کچھ دیر فطرت کے نطارے کرنے کے بعد دوبارہ چل دیے۔ کچھ ہی دیر میں ہم برزل ٹاپ پر پہنچ چکے تھے یہ جگہ سطع سمندر سے 13808  فٹ بلند ہے اور جون میں برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔ یہاں ہم نے کچھ دیر تصاویر بنوائیں اور پھر ہم چلم کے لیے روانہ ہوئے ۔ راستے میں تیز ہواوں کے ساتھ بارش ہوتی رہی اور ہم چلم پہچنے جہاں ایک ہوٹل پر ہم نے کھانا کھایا اور کچھ دیر سستائے۔

چلم سے ہمارا درلے لیک کا سفر شروع ہوا ۔ اس دوران گاڑی کے ڈرائیوڑ چچا عالم گیر سے کافی گپ شپ ہوئی۔ چچا عالم گیر رٹو کے رہنے والے تھے اور ان کے پاس ایک پرانی لیکن کافی مضبوط گاڑی تھی جو کہ شکل سے انقلاب سے پہلی کی لگتی تھی ۔ لیکن چچا عالم گیر ایک بہت ہی شریف النفس آدمی تھے اور کافی مزاحیہ بھی تھے اور ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تو ان کی الگ ہی گپ ہوتی جسے سن کر سب ہنس ہنس کر پاگل ہو جاتے۔

لگ بھگ شام کو ہم درلے لیک پہنچے اور بھائی عاقب نذیر کے ہوٹل پر ٹھہرے جہاں رات کو ہم نے خوب لڈو کھیلا اور پھر سو گئے۔

پانچواں دن۔

صبع ہوتے ہی ہم پہلے درلے لیک کا نظارہ کرنے گئے اور واپس آکر ناشتہ کیا اور پھر لیک کے کنارے خوب موج مستی کی۔ وہاں سے چچا عالم گیر کی کھٹارہ گاڑی پر ہم کالا پانی کی طرف نکل گئے ۔یہ وادی نہ ختم ہونے والے ننگے لیکن خوبصورت پہاڑوں اور نالے کے ساتھ ساتھ چلتی ہے جہاں ہر نئے موڑ پر ایک نیا اور حسین منظر دیکھنے کو ملتا ہے ۔

اس راستے میں کچھ ایسی جگہ بھی آئیں جہاں دل کی دھڑکن کافی تیز ہوئی کیونکہ وہاں سٹرک ایک خطرناک کھائی کے اوپر سے گزر رہی تھی اور نیچے ٹھاٹھیں مارتا دریا گزر رہا تھا۔ ایک جگہ ہمیں راستہ برف سے بند ملا اور وہاں گاڑی برف میں پھنس گئی جسے بہت مشکل سے ہم نے برف سے گزارا۔ خوبصورت میدانوں سے گزر کر ہم کالا پانی پہنچے اور پھر فوری واپسی کی راہ لی۔
                                            

اب ہماری منزل تھی ترشنگ ویلی جہاں نانگا پربت کا روپل فیس دیکھنے کو ملتا ہے تو ہم اب ترشنگ کی جانب رواں دواں تھے۔ یہ رستہ اب تک کا سب سے خوبصورت مناظر والا رستہ تھا لیکن کچھ خطرناک بھی تھا۔ لیکن ہم گنگناتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔

لگ بھگ شام کو ہم ترشنگ میں زین بھائی کے گیسٹ ہاوس نانگا پربت ٹوریسٹ کاٹیچ پہنچے یہ ایک خوبصورت گیسٹ ہاوس تھا۔

یہاں ہم نے کھانا کھایا ، بون فائر کیا، اور کافی کی ایک محفل کے بعد سو گئے۔



چھٹا دن۔

میں الارم لگا کر سویا تھا کیونکہ مجھے نانگا پربت کی گولڈن پیک کا نظارہ کرنا تھا جوکہ بہت صبع کے وقت ہوتا ہے ۔ تو میں ۶۴۔۳۰بجے جاگا لیکن بدقسمتی سے اس وقت نظارہ نہ ہو سکا۔ البتہ نانگا پربت کو بغیر بادلوں کے ضرور دیکھ لیا جو کہ دن کے وقت عام طور پر ممکن نہ ہوتا ہے۔ اب ہم ناشتہ کے بعد نانگا پربت بیس کیمپ کی طرف نکل پڑے ۔

راستے میں خوبصورت راستوں سے ہوتے ہوئے روپل گاوں سے گزر کر ہم چار گھنٹے کے سفر کے بعد بیس کیمپ پہنچے جہاں ہم سفیع اللہ بھائی کے کیمپ میں کچھ دیر رکے اور ان کی طرف سے چائے اور دیسی روٹی چپاٹی سے ہمارا استقبال کیا گیا۔ کچھ دیر رکنے کے بعد ہم نانگا پربت کے قریب جانے کے لیے نکلے تو یہ بھی کافی لمبا سفر تھا۔ نانگا پربت کے قریب پہنچنے پر کافی ٹھنڈ تھی اور اوپر سے اولے بھی برسنا شروع ہوگئے تھے۔ یہاں ہم نے ایک بڑے پتھر کی اوٹ لی اور آگ جلائی ۔
 یہاں ایک لمبی موج مستی کے بعد ہم واپس ترشنگ میں گیسٹ ہاوس آئے اور یہاں سب کا گروپ فوٹو لیا گیا ۔ اور پھر ہم استور کے لیے نکل پڑے۔

لگ بھگ ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ہم استور پہنچے اور وہاں حمزہ میر صاحب کے گیسٹ ہاوس پر رکے ۔ را ت کو لڈو کھیلا اور سو گئے۔

ساتواں دن۔

آج کے دن کا آغاز تھوڑا بوجھل سا تھا چونکہ آج میں اور ندیم بھائی اس گروپ سے الگ ہونے والے تھے اور ہم نے واپس کشمیر آنا تھا جبکہ باقی سب نے استور سے اسلام آباد کے لیے نکلنا تھا۔ ہمیں صادق بھائی اور دیگر تما م لوگ بضد تھے کہ ساتھ اسلام آباد چلو لیکن چونکہ ہم نے پھلاوئی پاس کرنا تھا اس وجہ سے ہم نے معذرت کی جو کہ کسی کو بھی قبول نہ تھی لیکن
 جد ا تو ہمیں ہونا ہی تھا۔۔۔۔

اور اس طر ح یہ گروپ ٹور مکمل ہوا۔


استور سے پھلاوئی براستہ پھلاوئی پاس۔

اب میں اور ندیم بھائی استور سے رٹو کی گاڑی پر بیٹھے اور رٹو پہنچے جہاں سے ہمیں میر ملک جانا تھا لیکن بدقسمتی سے ہمیں اتوار والے دن کی وجہ سے کوئی گاڑی نہ ملی اور ہمیں پیدل ہی نکلنا پڑا اور یہ ایک لمبا سفر تھا۔ راستے میں ہمیں ایک جگہ پاک آرمی کی گاڑی ملی جس سے ہمارے سفر کا کچھ حصہ بہتر گزر گیا لیکن پھر ہمیں چلنا پڑااور ہم میر ملک پہنچے جہاں سے ہم مزید آگے گئے اور اندھیرا ہونے تک چلنے کے بعد رات کو ہم چمروٹی بہک پہنچے جہاں ہمیں اپنا خیمہ نصب کرنا تھا لیکن وہاں کے مہمان نواز لوگوں نے ہمیں اپنے ایک خیمے میں ٹھہرایا اور کھانا دیا۔



آٹھواں دن ۔

صبع ہم وقت سے جاگے ناشتہ کیا اور پھر وہاں سے ہم پھولاوئی پاس کی جانب چل پڑے۔ دریاوں ، میدانوں اور خوبصورت جھرنوں سے گزرتے ہوئے ہم آگے بڑھ رہے تھے۔ اس علاقے میں بہت ہی خوبصورت میدان دیکھنے کو مل رہے تھے جو کہ روح کو پرسکوں کر رہے تھے۔ صاف شفاف پانی میں تیرتی مچھلیاں یہاں کے امن کا اعلان کر رہی تھیں۔ اب ہم کافی سفر کے بعد برف کے میدان میں تھے اور یہ نہ ختم ہونے والا تھا اور ایک سخت چڑھائی تھی ۔ اس راستے پر کوئی چرند پرند نظر نہ آرہا تھا۔ چونکہ برف کی وجہ سے یہاں بکروال بھی نہ آئے تھے تو علاقہ کافی خوفناک تھا اور راستہ کا کوئی نشان نہ تھا۔ لیکن ہمارےپاس GPS نقشہ تھا جس کی مدد سے ہم آگے بڑھ رہے تھے ۔ یہاں کافی ڈر لگا لیکں پھر ہم پاس کے پاس پہنچ ہی گئے اور وہاں پاس پر ہمیں کچھ اور مسافر بھی ملے تو ہمارا حوصلہ تھوڑا بلند ہوا۔ پاس کی سطع سمندر سے بلندی 13300 فٹ سے زائد ہے۔ پاس کے بعد ہم نے اترائی اترنا تھی تو ہر طرف برف تھی اس لیے ہم نے سلائیڈنگ کی ۔ وہیں ہمیں ایک جمی ہوئی جھیل بھی دیکھنے کو ملی۔ ہم آگے بڑھ رہے تھے اور ایک لمبے اور تھکا دینے والے سفر کے بعد ہمیں بلآخر پھلاوئی کا گرین ایریا نظر آیا تو کچھ جان میں جان آئی۔ یہاں نیچے ہم ایک نالے کے ساتھ ساتھ برفانی تودوں سے اور جھرنوں سے گزرتے ہوئے پھلاوئی والوں کے بہک میں پہنچے اور پھر وہاں سے ایک مزید لمبے سفر کے بعد ہم رات دیر کو پھلاوئی بازار میں باعافیت پہنچ گئے ۔


اس طر ح یہ ایک لمبا لیکن دلچسپ سفر ختم ہوا۔ اس سفر میں برف اور تیز دھوپ اور استور کی پتھریلی وادی کی تپش سے ہمارے چہرے جل چکے تھے اور کافی جلن ہوتی رہی۔ اس سفر میں کافی نئے دوست بنے اور کچھ دوستوں کو الوادع کہنا پڑا حالانکہ یہ سات دن کے دوست ایسا لگ رہا تھا جیسے بچپن کے دوست ہوں۔ یہ عظیم لوگ ہمیشہ سلامت رہیں اور قائم رہیں دائم رہیں شاد رہیں آباد رہیں۔


صادق بھائی، ڈاکٹر صاحب ، سلمان حمید بھائی، نور قریشی بہن اور ولید پاشا بھائی آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔

صادق بھائی نے جس طرح اس سفر کی ہمت کی اور تیاری کی یہ قابل تعریف تھی اور ایسےسفر کشمیر کی سیاحت کی بہتری میں قابل قدر کردار ادا کر یں گے۔ اور نور قریشی کا شکریہ جنہوں نے اکیلے ایک کامیاب محفوظ سفر کر کے یہ ثابت کیا کہ یہ وادی خواتین کے لیے کتنا محفوظ ہے۔

تحریر۔ ساجد سرور ساجد۔
                                 

[full-width]

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads

Blogger Templates