کشمیر کا نام ذہن میں آتے ہی جنت کا تصور آتا ہے جس کی ہر وادی ہی حسین ہے وادی گریز کی اگر بات کی جائے تو اپنے حسن بے مثال کے سبب یہ ایک منفرد مقام رکھتی ہے.
وادی نیلم میں موجود یہ حسین ترین وادی تین حصوں میں تقسیم شدہ ہے جس کے ایک حصہ وادی نیلم سے منسلک ہے تو دوسرا حصہ منی مرگ سے جڑ کر گلگت بلتستان کا حصہ بن جاتا ہے اور تیسرا حصہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے بانڈی پورہ میں ہے.
یہ حسین ترین وادی اپنے اندر بے پناہ حسن سمیٹے صدیوں سے منتظر ہے ان نگاہوں کی جو اس کو خراج تحسین پیش کرسکیں تاحد نظر پھیلا ہوا سبزہ ہو یا شان سے بہتا دریا دور پہاڑوں سے بہ کر آتے خوبصورت جھرنے اور بلند و بالا پہاڑ مل کر اس وادی کے حسن کی تکمیل کرتے ہیں ایسے دلکش نظارے جو نظروں کو باندھ لیں اور قدم کہیں اور جانے سے انکار کردیں.
اپنی بے پناہ دلکشی کے باوجود یہ وادی اگر سیاحوں کی نظروں سے اب تک اوجھل ہے تو اسکی سب سے بڑی وجہ یہاں کے وہ حالات تھے جو دو ملکوں کے مابین تنازعہ بن کر نجانے کتنے عرصے سے اس حسین خطے اور یہاں کے معصوم لوگوں کو مجروح کرتے چلے آ رہے ہیں.
اللّٰہ کے کرم سے اب حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں اور بآسانی اس حسین وادی کی جانب سفر کیا جاسکتا ہے
وادی نیلم میں سفر کرتے کرتے شاردہ اور پھر کیل سے شروع ہونے والی یہ وادی قمری تک پھیلی ہوئی ہے. مشہور زمانہ تاؤبٹ بھی اسی وادی کا ایک خوبصورت گاؤں ہے.
کیونکہ خوبصورت منزلوں کے لیے آبلہ پائی شرط ہے تو اس وادی کے دلکش مقامات تک رسائی ہائیکنگ کے بغیر ممکن نہیں یہ اور بات منزل پر پہنچ کر آنکھوں کو خیرہ کردینے والے مناظر نہ صرف تھکن کو سمیٹنے بلکہ قدموں کو روک لینا کا ہنر رکھتے ہیں.
عکاسی محمد ندیم منہاس